Thursday 18 August 2011

Ab Ke Hum Bichray To Shaid Kabhi Khwabon Mein Milein


اب کے ہم بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے، ممکن ہے، خرابوں‌ میں ملیں

غمِ دنیا بھی غمِ یار میں‌ شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

تو خدا ہے، نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں‌ اتنے حجابوں میں‌ ملیں

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں‌ ملیں

اب نہ وہ میں، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخس تمنا کے سرابوں میں ملیں

4 comments: