دل کے کاغذ پہ ترا نام جو مخطوط ہوا
پھر ہر اک سانس مرا تجھ سے ہی مشروط ہوا
مجھ کو، مجھ سے ہی بغاوت پہ جو اکسائے ہے
جانے یہ کون مری ذات میں مخلوط ہوا
چال کیا کیا نہ ستم کیش زمانے نے چلی
نام اُس کا جو مرے نام سے مربوط ہوا
ہے محبت کا یہ احساں کہ ہوا دل، ورنہ
ایک پتھر ہی تو سینے میں تھا مخروط ہوا
اُس کو لگتا تھا ابھی ٹوٹ کے بکھرے گا، مگر
ضبط میرا تو ہر اک چوٹ پہ مضبوط ہوا
لطف کچھ اور بڑھا عشق کے افسانے کا
جب کہانی میں غمِ ہجر بھی مخلوط ہوا
اب کے لے آئی کہاں زینؔ تمنا اُس کی
سوچ مفلوج ہوئی، ہوش بھی مخبوط ہوا
اشتیاق زین
No comments:
Post a Comment